عورت مرد کے برابر ھے
ہال میں تقریر کرتی وہ لڑکی پندرہ سال کی تھی جو بہت
اعتماد سے اپنا نقطہ نظر بیان کر رہی تھی کہ عورت مرد کے برابر ہے! اور وہاں موجود
لوگوں سے داد بھی وصول کر رہی تھی جب تک انہی حاضرین میں سے ایک لڑکی باقاعدہ اس
موضوع کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی نشست سے کھڑی ہوئی ۔
”
محترمہ، میں آپکی رائے سے اختلاف رکھتی ہوں! “
”بےشک
ہر انسان کو اختلافِ رائے کا حق ہے ۔ آپ اسٹیج پر آ کر باآسانی اپنا نقطہ نظر بیان
کر سکتی ہیں۔“ تقریر کرتی ہوئی لڑکی نے
مسکراتے ہوئے دعوت دی۔ اور مخالفہ نہایت وقار کے ساتھ اسٹیج کی جانب آئی۔
”آپ
نے کچھ دیر پہلے اپنی تقریر کے آخر میں کہا کہ بہرحال عورت مرد کے برابر ہے، میں
اس بات کی سرے سے مخالفت کرتی ہوں جناب!!” اس نے خوشنما انداز میں حاضرین کو اپنی
جانب متوجہ کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا۔
”یقیناً
یہاں بیٹھے لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ میں بذاتِ خود ایک لڑکی ہو کر اس مؤقف کی مخالفت
کیوں کر رہی ہوں۔
تو بات کچھ یوں ہے کہ مرد اور عورت کبھی بھی برابر نہیں
ہو سکتے، نہ جسمانی طور پر اور نہ ہی ذہنی طور پر۔
ہاں اگر یوں کہا جائے تو بےجا نا ہوگا کہ دونوں کئی
مقامات پر اپنی ذات میں پریئر اور پاورفل ضرور ہوتے ہیں!
اب آپ کہیں گے کہ آج عورت مرد کے شانہ بشانہ چلتی ہے،
تو کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ مرد کے برابر ہوگئی؟؟
ہرگز نہیں! کبھی مٹرگشتی کرتے ہوئے غور کیجیۓ
گا کہ آپ کے آس پاس موجود درخت، اسٹریٹ لائٹس یہاں تک کہ چاند بھی تو آپ کے ساتھ
ساتھ چلتا ہے تو کیا آپ ان چیزوں کو بھی اپنے برابر مان لینگے؟
نہیں نا ! ” یکدم ہال میں چھائی خاموشی میں قہقہے
گونجنے لگے۔“
ہاں یہ درست ہے کہ مرد کھانا بھی بنا سکتا ہے اور عورت
نوکری بھی کر سکتی ہے۔ مگر یہاں بیٹھی کوئی عورت بتائیگی کہ آخر کب تک اکیلی اپنے
اہل و عیال کی کفالت کرسکتی ہے؟ چلیں اس نقطے میں بھی طاقت نہیں عورت جب تک چاہے
اتنی ہمت پیدا کرسکتی ہے۔۔
ایک عورت پر گھر سے باہر کی ذمہ داری اسکی ہمت پر نہیں
بلکہ اس کے ظرف پر منحصر ہوتی ہے مگر مرد کے لیۓ
چاہت، ظرف یہاں تک کہ ہمت کی بھی گنجائش نہیں اس پر تو قدرت نے کفالت کو فرض قرار
دیا ہے!
یہ ایک مرد کی ہی ہمت ہے کہ وہ ساری عمر اپنے والدین
پھر شریکِ حیات اور پھر اپنی اولاد کیلۓ
دنیا بھر کی خاک چھانتا پھرتا ہے، ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ میرے اہل و عیال کو کوئی
تکلیف نہ ہو۔
کبھی وقت نکال کر اپنے والد کی پھٹی ہوئی ایڑیاں، اپنے
بھائی کی سخت ہتھیلی اور اپنے شوہر کے تھکن زدہ چہرے کو ضرور دیکھیۓ
گا۔۔ میرا نقطہ سمجھنے میں آسانی ہوگی!! عورت کبھی بھی نہیں جان سکتی کہ مرد گھر
کے باہر کسطرح کے رویوں کا سامنا کرتا ہوگا۔
ہاں مگر جب وہ خود گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسے احساس
ہوتا ہے کہ سو میں کتنے بیس ہوتے ہیں!! اور وہ جب ان رویوں کو سہتی ہے تو اسکا
مزاج کھلتا ہے، پھر وہ گھر میں موجود باقی افراد کا مزاج بھی درست کردیتی ہے۔۔” کہیں
دور بیٹھے کسی شخص نے تالی بجائی تو ہر طرف سے تالیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں
مگر وہ لڑکی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھی۔
“ہاں،
سہی ہے! عورت کو حق ہے! ایک عورت جب گھر کے باہر کی دنیا سے روشناس ہوتی ہے تو اپنی
بھڑاس نکالنے کا، چیخنے چلّانے کا حق حاصل کرلیتی ہے اور پھر بڑے وثوق سے جتا دیتی
ہے کہ یہ میرا کام نہیں ہے کہ گھر کے باہر کی ذمہ داری اٹھاؤں!!”
عورت کی واحد خامی یہ ہے کہ وہ برداشت نہیں کرتی اور اس
بات میں یہ خوبصورتی ہے کہ عورت کی خوبی اسی جملہ کی متضاد میں پوشیدہ ہے۔۔
مگر مرد! مرد کو تو نا چاہتے ہوۓ
بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ وہ چیخ نہیں سکتا، احسان نہیں جتا سکتا کیوںکہ یہ اسکا
فرض ہے! اور جہاں تک رہی بات برابر ہونے کی تو ایسا اب بھی ممکن نہیں۔۔ اگر ابھی
بھی کوئی شک ہے تو مجھے اتنی سی بات کا جواب دیجیۓ
گا، سوال تھوڑا مضحکہ خیز ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں بیٹھے لوگوں کو
گراں بھی گزرے مگر۔۔
کیا کوئی مرد اولاد کو جنم دے سکتا ہے؟ یا کسی عورت کے لئے بغیر اپنے بیٹر ہالف کے ایسا ممکن ہے؟؟” اس سوال پر ہال میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔“
بہرحال یہ ایک نا ممکن اور بچگانہ سی بات ہے۔ کیونکہ
مرد اور عورت ایک دوسرے کے برابر نہیں ہوا کرتے بلکہ ایک دوسرے کیلئے ضروری ہوا
کرتے ہیں۔ دونوں اپنی جگہ پریئر پھر سْپیریئر اور پھر لاسٹ بٹ نوٹ دی لیسٹ،
پاورفْل ہوتے ہیں!!”
وہ جس نے بڑی خوش دلی سے اس خاتون کو اسٹیج پر مدعو کیا
تھا حیرانی سے اسکی طرف دیکھے جارہی تھی جب اس نے اسے واپس پلٹتے وقت کہتے سنا۔
“کوئی
بات نہیں آپ بھی اپنے جواز کی بنیاد پر اختلاف کرسکتی ہیں۔
دراصل آپ عمر کے اس حصے میں ہیں جب ہر لڑکی ایسا ہی
سوچتی ہے اور میں یہ بات تسلیم کرتی ہوں کہ میں بھی یوں ہی سوچا کرتی تھی۔۔” اپنی
بات ختم کرتے ہی اس نے ایک ایک دلکش مسکراہٹ مقرر کی جانب اچھالی اور داد وصول کرتی
ہوئی اپنی نشست پر جا بیٹھی۔۔۔
Post a Comment