" صاب میں مجبور تھا فقیر نہیں"  

         سفید پڑتا چہرہ آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ ہلکے بےترتیب بال سہما ہوا لہجہ اور پریشان حال پرانے مگر صاف سُتھرے کپڑوں میں ملبوس وہ روزانہ صبح میرے پاس آیا کرتا تھا۔

وہ باپ تھا ۔ مجبور باپ ہارا ہوا باپ ۔

صاب میری بیٹی بیمار ہے اس کا آپریشن ہے خدا کے لئے میری کچھ مدد کر دیں اللّہ آپ کو بہت اجر دیں گے ۔

کام میں مگن دوکان پہ بیٹھے کلوکلیٹر پر تیزی سے اُنگلیاں چلاتے ہوئے کن اکھیوں سے میں نے اس کی طرف دیکھا اور گویا ہوا ۔ اچھا! خوب یہ کام ٹھیک ہے ۔ یہ مانگنے کے نت نئے طریقے کہاں سے نکال لیتے ہو تم لوگ ۔

کبھی ماں بیمار ہے تو کبھی بیوی اور بیٹی ۔ اچھا طریقہ ہے حرام خوری کا چنگے بھلے ہو کوئی کام دھندہ نہیں کر سکتے مانگنے چلے آتے ہو منہ اُٹھا کے ۔

صاب کرتا ہوں کام مگر تین سو دیہاڑی میں گھر کا چولہا بڑی مشکل سے چلتا ہے بیٹی کا علاج کیسے کراوں ۔ آپ حسبِ توفیق میری مدد کر دیں احسان مند رہوں گا اللّہ آپ کو ہزار گنا اجر دیں گے ۔۔

میں نے ناچاہتے ہوئے بھی دس روپے کا نوٹ اسے تھماتے ہوئے دس ہزار باتیں سُنا دیں جیسے اپنی ساری جمع پونجی اسے تمھا رہا ہوں۔

اور وہ نظریں جھکائے دس روپے کا نوٹ لیتا دعائیں دیتا رخصت ہو گیا۔

یہ پہلی دفعہ جب میری دوکان پہ آیا تب کا واقعہ ہے ۔ اب یہ سلسلہ روز چل نکلا وہ آتا سوال کرتا میں باتیں سُناتا وہ سر جھکائے کھڑا رہتا میں دس روپے دیتا وہ دعائیں دیتا رخصت ہو جاتا۔

ایک دن ایسا ہوا کہ صبح مسجد سے واپسی پر میرے والد صاحب نے مجھے پانچ سو دیئے کہ کسی ضرورت مند کو دے دینا اور وہ اکثر ایسا کرتے رہتے ہیں اس لئے پیسے میں نے جیب میں رکھے اور دوکان کی راہ لی ۔ حسب معمول پہلے کی طرح سب سے پہلے اسی فقیر نے آ کر مودبانہ اور سلجھے طریقے سے سوال کیا اور میں نے سب سے پہلے اسے خوب الٹی سیدھی سنائیں اور پانچ سو کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے اسے خبردار کیا کہ یہ تمہارے پورے چھ مہینے کی خیرات ہے اب چھ ماہ تک تم دوبارہ میری دوکان کے آس پاس بھی نظر آئے تو تمہاری خیر نہیں ۔

اور وہ روزانہ کی طرح سر جھکائے دعائیں دیتا نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔۔۔

تقریباً دو ہفتے تک تو وہ دوبارہ نظر نہ آیا پھر ایک دن میں اپنے اسسٹنٹ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا کہ وہ فقیر نمودار ہوا ۔

اس دیکھ کر جھٹ سے میرا پارہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا ۔ تم پھر آ گئے اثر نہیں ہوا تھا کیا کہا تھا میں نے ذرہ سکون نہیں بہت ڈھیٹ آدمی ہو۔

اس نے میری طرف خاموشی سے دیکھا اور بند مُٹھی میری سامنے کاونٹر پر رکھ کر کھول دی اس میں کچھ پیسے تھے ۔

خود کو سنبھالتے ہوئے میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا یہ کیا ہے؟

صاب آپ نے جو پیسے دیئے تھے ان میں سے کچھ بچ گئے تھے وہ واپس کرنے آیا ہوں ۔ کیونکہ میری بیٹی کا پچھلے ہفتے انتقال ہو گیا ہے مجھے اب ان پیسوں کی ضرورت نہیں۔ آپ رکھ لیں صاب میں مجبور تھا فقیر نہیں ۔ اور آپ لوگوں کی بہت مہربانی جو میرے مشکل وقت میں مجھ بےبس اور لاچار کے کام آئے ۔ اللّہ آپ کو کبھی کسی شے کی تھوڑ نہ دے صاب اللّہ خوش اور آباد رکھے ۔

آنکھوں میں جاری آنسووں اور کانپتی آواز کے ساتھ وہ میرا شکریہ ادا کر رہا تھا اور میں اس کی کھلی مُٹھی کو بت بنا اپنی کرسی پہ بیٹھا مارے شرم اور ندامت کے زمین کے پھٹ جانے اور دفن ہو جانے کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔

وہ شکریہ ادا کرنے کے بعد رکا نہیں تھا آج بھی ڈھیروں دعائیں دیتا رخصت ہو ا تھا مگر مجھے اپنے حلق میں درد کا ایک گولا اٹکا ہوا محسوس ہو رہا تھا جس کو نگلنے میں نہ جانے کتنا وقت درکار ہوگا ۔۔۔۔

انسانی فطرت بھی کمال کی ہوتی ہے غریب کو اسکی غریبی کا احساس دلانے اور اپنی برتری ظاہر کرنے کے لئے اپنی نیکی کو گناہِ کبیرہ میں بدل کر سکون کےطلبگار رہتے ہیں ۔

اللّہ نے ہمیں جب ایسی بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے جس کے ہم ذرا بھی لائق اور قابل نہیں تو پھر ہم کیوں اس کے دیئے ہوئے سے جب کسی ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں تو اصل نقل کے چکروں میں پڑ جاتے ہیں ۔ آپ جب بھی جتنا ہو سکے توفیق کے مطابق جب کسی کی مدد کریں تو دل سے کریں اور اللّہ کی رضا کے لئے کریں اور اللّہ کی رضا بیزاری سے حاصل نہیں ہوتی صدقِ دل سے ہوتی ہے ۔

" بےشک وہ ہماری نیتوں کو بخوبی جانتا ہے "  

1 Comments

Post a Comment